عمومی اصطلاح میں تو معجزات نبوی سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات ہیں مگرمعجزہ کا کسی بھی نبی کے ہاتھ سے سرزد ہونا اس نبی کر معجزہ کہلائے گا۔یعنی نبی کے ہاتھ سے صادر ہونے والا ایسا کام جو دوسروں کی عقل کو عاجز کر دے اور اسکاکوئی توڑ پیش نہ کیاجاسکے اور نہ ہی اسکا کوئی جواب دیاجاسکےمعجزات نبوی ہونگے۔ معجزات نبوی کو کئی درجہ بندیوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہقرآن پاک ہے۔جس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔قرآن کے رموز واسرار پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
قرآن کریم کی رو سےترميم
علماء کے مطابق قرآن کریم کی سورۃ القمر کی پہلی آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کا ذکر ہے۔ یعنی شق القمر کا۔ کفار کے مطالبے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا تھا۔
روایات کے مطابقمعراج شریف کا سفر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک شاندار معجزہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پرتشریف فرماہوئے اور بیت المقدس پہنچے وہاں سب انبیاءعلیھم السلام کی امامت کرائی، پھر ساتوں آسمانوں کی سیر اوراﷲ تعالی سے ملاقات کے بعد زمین پر تشریف لے آئے۔ لوگوں نے پوچھافلاں قافلہ جو مکہ اور بیت المقدس کے درمیان میں ہے کس جگہ تھا؟؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جومقام بتایا قافلے نے واپسی پر اسی رات کو اس مقام پر قیام کی تصدیق کر دی۔
احادیث اور تاریخ کے مطابقترميم
احادیث اور تاریخ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے وصال سے بہت سے معجزات درج ہیں۔
شق صدرترميم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک کو فر شتوں نے کئی بار آب زم زم سے دھویا۔ اسے واقعہ شق صدر کہا جاتا ہے۔
دیگر معجزاتترميم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائی حلیمہ سعدیہ جب مکے آرہی تھیں تو انکا گدھا سب سے رک رک کر چل رہا تھا۔ دائی حلیمہ کے شوہر کو ڈانٹتے کہ گدھا تیز چلاؤ۔ جب یہ قافلہ واپس آ رہاتھا اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائی حلیمہ کی گود میں تھے تویہی مریل گدھا سب سے آگے بھاگتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے دائی حلیمہ کے قبیلے بنواسد میں جب یہ مبارک بچہ پہنچ گیا تو اس قبیلے کے جانوروں کے تھن ایسے ہوگئے جیسے جاگ گئے ہوں، برتن بھربھرکر دودھ جیسے امڈنے لگا۔دوسرے قبائل کے لوگ اپنے لڑکوں کو ڈانٹتے تھے کہ تم بھی وہیں جانور چراؤ جہاں اس گھرانے کے بچے چراتے ہیں، وہ لڑکے کہتے کہ وہیں تو چراتے ہیں لیکن دودھ اتنا نہیں نکلتا۔انہیں کیا معلوم یہ کسی گھاس یا خوراک کی وجہ سے دودھ نہیں نکل رہا بلکہ یہ تو معجزہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئیاں بھی سچ ثابت ہوتی تھیں۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبةاﷲ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ایک مسلمان نے اپنی کمر دکھائی جو کافروں کے تشدد کے باعث بری طرح جھلس کر زخمی ہو چکی تھی اس نے عرض کیا کہ ان کے لیے بددعا کیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالٰی کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضرموت(عرب کے دو کونے) تک سونے سے لدی پھندی ایک نوجوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ حضرت سلیمان منصور پوری نے اپنی کتاب ”رحمة اللعالمین“میں ایسی کئی روایات کونقل کیا ہے جن میں کسی نوجوان خاتون کا ذکر کیاگیا ہے جو ایک شتر پر سوار ہو کر تن تنہا صنعا سے حضرموت تک گئی اور اسکے جسم پر سونے کے زیورات گویا لدے ہوئے تھے۔
ہجرت مدینہ کے سفر میں جب سراقہ بن مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوآن گھیراتوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سراقہ کیا حال ہوگا جب قیصر و قصرٰی کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے۔ دور فاروقی رضی تعالیٰ عنہ میں جب ایران فتح ہوا تو اس وقت کے بادشاہ لوگ اپنے ہاتھوں میں قیمتی دھاتوں کے کنگن پہنا کرتے تھے، اسی طرح کے کنگن ایران سے مدینہ لائے گئے تو حضرت عمر نے سراقہ بن مالک کو بلوا بھیجااس کے آنے پر اسے بادشاہ کے کنگن پہنائے گئے اور اسکے دونوں بازو کندھوں تک ان قیمتی کنگنوں سے بھر گئے۔
اسی سفر کے دوران جب آپ ام معبد کے خیمے میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت پورے قافلے کوشدید بھوک لاحق تھی،اس خاتون کے ہاں ایک مریل بکری بندھی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں کچھ کھانے کو دو تو اس نے عرض کی کچھ میسر ہوتاتو مانگنے کی نوبت نہ آتی،اس بکری کے بارے میں استفسار ہوا توام معبد نے کہا اس میں دودھ کاکیاسوال یہ تو چلنے کے قابل ہی نہیں کہ ریوڑ کے ساتھ جاتی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بکری کی کمرپر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس خیمے کاسب سے بڑابرتن لا کراس میں دودھ دوہنا شروع کیاگیا۔ مریل بکری جو چلنے سے قاصر تھی دست نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزے کے باعث اسکے تھنوں سے نکلنے والے دودھ سے وہ سب سے بڑا برتن لبالب بھرگیا۔
غزوہ احزاب جسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں ،اس جنگ سے قبل جب خندق کھودی جارہی تھی توایک بہت بڑا اور سخت پتھر حائل ہوگیا، بہت زور لگایاگیالیکن نہ ٹوٹا۔تب آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع کی گئی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اورکدال سے ایک ضرب لگائی، چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا روم فتح ہوگیا، پھر دوسری ضرب لگائی چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایران فتح ہوگیا پھر تیسری ضرب لگائی اور چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔ بعد میں آنے والے دنوں میں روم اور ایران تو بہت جلد فتح ہوگئے اور روم کے بھی متعدد علاقے زیراسلام آگئے صرف قسطنطنیہ کا شہر باقی رہ گیا۔اس شہر کو فتح کرنے کے لیے اور نبی علیہ السلام کی پیشین گوئی پوری کرنے کے لیے کم و بیش چودہ بادشاہوں نے لشکر کشی کی اور آٹھ سو سال بعد قسطنطنیہ کا یہ شہر بھی اسلام کا زیرنگیں آ گیااور سچے نبی کی پیشین گوئی پوری ہو گئی۔
غزوہ خندق کے موقع پر جب سب نے پیٹ پر پتھرباندھ رکھے تھے تو ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر گئےاور بکری کابچہ ذبح کیااور ساتھ ہی گھر والوں کومیسر آٹے سے روٹیاں پکانے کا کہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضرہوئےاور کان مبارک میں عرض کی کہ سات آٹھ افراد کاکھانا تیار ہے تشریف لے آئیے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساٹھ ستر افراد کے ساتھ پہنچ گئے۔اس صحابی کے چہرے پر پریشانی کے آثار ہویدادیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھالی ہٹائے بغیرسالن نکالتے رہو اور اوپر سے رومال ہٹائے بغیر روٹیاں نکالتے رہواسی طرح اس سات آٹھ افراد کے کھانے کو ساٹھ ستر افراد نے سیر ہو کرتناول کیااور مہمانوں کے چلے جانے پر پہلے جتنا کھاناپھر بھی باقی دھراتھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں شفا تھی، غزوہ خیبر کے موقع پرجب حضرت علی رضی تعالٰی عنہ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان آنکھوں میں لگادیااسکے بعد تاحیات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ںکھوں کی تکلیف سے محفوظ رہے۔
ایک بار دودھ کے بھرے چھوٹے سے کٹورے میں آپ نے اپنی انگلیاں ڈالیں اور اس پیالے سے منہ لگاکرسب اصحاب صفہ نے دودھ پیااور پھر بھی اس پیالے میں اتنا ہی دودھ باقی تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایاکہ ایک پتھر مجھے سلام کیا کرتا تھا ۔
جانوروں کی زبان سمجھ لینا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک معجزہ تھا،جب کچھ لوگ شرف ملاقات کے لئے حاضر خدمت ہوئے تو انکے اونٹ نے اپناسر لمبا کرکے تو قدمین شریفین پر رکھ دیااور اپنی زبان میں ڈکارا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ مجھ سے شکایت کررہاہے کہ تم اس سے کام بہت لیتے ہو کھانے کو کم دیتے ہو اور تشدد بھی کرتے ہو۔وہ لوگ کم و بیش دوماہ بعد اس اونٹ کو پھرلائے اور خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرکے عرض کی اس دوران ہم نے اس سے کوئی کام نہیں لیااور صرف کھلایاپلایا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی صحت دیکھ لیں اور اجازت ہو تو ہم اس سے کام لینا شروع کر دیں .
Tidak ada komentar:
Posting Komentar